وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ
اور پچھلوں میں [٨] سے کم
ف 3 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور قدیم مفسرین سے یہ دونوں مقنول ہیں۔ شاہ صاحب نے بھی اپنے فوائد میں بلا ترجیح دونوں نقل کئے ہیں ایک یہ کہ پہلے تمام انبیائو کے پیروں میں سے اعلیٰ درجہ کے لوگ ملا کر لغت محمدیہ کے اعلیٰ درجہ کے لوگ سے تعداد ہیں زیادہ ہوں گ۔ دوسرا یہ کہ خود امت محمدیہ میں اعلیٰ درجہ کے لوگ پہلے بہت ہوں گے اور بعد میں کم۔ اس دوسرے مطلب کی تائید ابوبکرہ کی روایت سے ہوتی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ھما جمیعاً من ھذہ الامتہ کہ ان دونوں سے مراد اسی امت کے لوگ ہیں مگر یہ روایت اسناد کمزور ہے اس لئے علماء تفسیر نے اس پر اعتماد نہیں کیا۔ پہلے مطلب کو ابن جریز طبری نے دوسرے مطب کو حافظ بن کثیر نے ترجیح دی ہے۔ ان کے علاوہ حافظ ابن کثیر نے ایک تیسرا مطلب بھی بیان فرمایا ہے کہ ہر امت کے پہلے طبقہ میں جتنے درجہ کے لوگ ہوئے ہیں اتنے اس کے بعد کے طبقہ میں نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث ” خیر القرون قرنی“ سے معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم۔