وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو تاآنکہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں۔ پھر اگر تم ان میں اہلیت [٩] معلوم کرو تو ان کے مال ان کے حوالے کردو اور ضرورت سے زیادہ اور موزوں وقت سے پیشتر اس ارادہ سے ان کا [١٠] مال نہ کھاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اس کا مطالبہ کریں گے۔ اور جو سرپرست کھاتا پیتا ہو اسے چاہئے کہ یتیم کے مال سے کچھ نہ لے اور جو محتاج ہو وہ اپنا حق الخدمت دستور [١١] کے مطابق کھا سکتا ہے۔ پھر جب تم یتیموں کا مال انہیں واپس کرو تو ان پر گواہ بنا لیا کرو۔ اور (یہ بھی یاد رکھنا کہ)[١٢] حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے
ف 4 یعنی یتیموں کا امتحان اور ان کی تربیت کرتے رہو جس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ پہلے تھوڑا سامال دے کر ان کو کسی کام پر لگا کے دیکھو کہ آیا یہ اپنے مال کو بڑھاتے یا نہیں پھر جب وہ بالغ ہوجائیں اور ان میں رشد ہو تو با توقف مال ان کے حوالے کر دو۔ رشد سے مراد عقلی اور ادینی صلاحیت ہے پس بالغ ہونے کے علاوہ مال کی سپرد داری کے لیے رشد بھی شرط ہے۔ اگر کسی شخص میں رشد نہیں ہے تو خواہ وہ بوڑھا ہی کیوں نہ ہوجائے متولی یا وصی و چاہئے کہ وہ مال اس کے حوالے نہ کرے (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 5 یعنی جس سے کم از کم ضرورت پوری ہو سکتے ف 6 یتیم کے متولی یا وصی کو حکم ہے کہ گواہوں کے روبرو مال واپس کرے تاکہ کل کو اس پر کوئی الزام نہ آۓ۔