سورة آل عمران - آیت 197

مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ چند روزہ زندگی کا لطف ہے پھر (موت کے بعد) ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ جو بہت برا ٹھکانا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 اوپر کی آیات میں مومنوں سے غفران ذنوب اور ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا ہے حالا نکہ وہ فقر وفاقہ کی حالت میں بسر کر رے ہیں تھے ان کے بالمقابل کفا نہایت عیش وتنعم میں تھے ان کو دیکھ کر بعض اوقات مسلمان غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے اور مختلف خیالات کی دنیا میں چلے جا نے لہذا ان آیات میں مسلمانوں کا ذہن صاف کرنے کے لیے کفار کا انجام بیان فرمایا ہے اور مسلمانوں کو تسلی دی ہے۔ (کبیر) مروی ہے کہ بعض مسلمانوں نے کہا اللہ تعالیٰ کے دشمن تو بڑی عیش وعشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہم نہایت عسرت اور تنگی میں مبتلا ہیں تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی فرا کا بیان ہے کہ یہ آیت یہود کے بارے میں ناز ہوئی ہے (المنا) مقصد یہ ہے کہ کفار کے شہروں میں تجا رتی کا روبار ان کی خوشحالی اور مال ودولت کی فروانی کو دیکھ کر مسلمانوں کے دلو میں کسی قسم کا حزن وغم اور بغض نہیں آتا چاہیے نہ ان کے پاس کا شکار ہونا چاہئے ارونہ منا فیقن ہی کو جو شدت و خوف کے وقت پکار اٹھتے ہیں۔ ماوعد نا اللہ روسولہ غرور۔ ( احزاب آیت 12) یعنی پیغمبر نے تو ہم سے محض فریب اور دھو کے کا وعدہ کیا ہے اس استدلال کرنا چاہیے یہ چند روزہ زندگی کا سامان اور عارضی بہار ہے مرنے کے بعد ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ہو نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے اس کے مخاطب بظاہر تو آنحضرت ﷺ مگرمراد امت ہے (المنار۔ شوکانی) اس کے اگلی آیت میں مومنین کی جزا کا ذکر فرمایا ہے تاکہ مزید تشفی حاصل ہو اور چونکہ کفار کے مقابلہ میں بیان کی جارہی ہے اس لیے لکن کا لفظ بطور استدراک ذکر فرمادیا۔ (المنار )