وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان لانے میں ان کی پیروی کی تو ہم ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے اپنے عملوں سے کچھ بھی کم [١٥] نہ کریں گے ہر شخص اپنے ہی عملوں کے عوض گروی [١٦] ہے۔
ف 10 یعنی اولاد کے ساتھ آملنے سے یہ نہیں ہوگا کہ ان کے کسی عمل کا ثواب کم ہوجائے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر فضل و کرم ہوگا کہ ان کی اولاد گو درجات میں کم ہوگی لیکن ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کے لئے انہی کے درجہ میں رکھی جائے گی بشرطیکہ وہ انہی کے راستہ پر چلنے والی ہو حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : آدمی جب جنت میں داخل ہوگا تو اپنے والدین بیوی اور اولاد کے بارے میں دریافت کرے گا۔ اس سے کہا جائے گا کہ وہ تیرے درجہ اور عمل کو نہیں پہنچے وہ عرض کرے گا کہ اے اللہ ! میں نے تو اپنے لئے اور ان کے لئے عمل کیا تھا اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ انہیں بلند درجہ دے کر ان کے ساتھ ملا دیا جائے۔“ اس کے بعد حضرت ابن عباس نے یہ آیت پڑھی۔ (شوکانی) اسی طرح نیک اولاد کی وجہ سے ماں باپ کے درجات میں بھی بلندی ہوگی۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت میں نیک بندے کا درجہ بلند فرمائے گا وہ عرض کرے گا ” یہ بلند درجہ مجھے کیسے مل گیا؟“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” تیرے لڑکے کے تیرے لئے استغفار کی وجہ سے۔“ (شوکانی) ف 11 یعنی جس طرح گروی رکھی ہوئی چیز پیسہ دیئے بغیر نہیں چھوٹ سکتی اسی طرح ہر آدمی اپنے عمل کا ثواب یا عذاب پائے بغیر نہیں رہ سکتا۔