لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
بیشک اللہ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت [٢٤] کر رہے تھے۔ ان کے دلوں کا حال اسے معلوم ہوگیا لہٰذا اس نے ان پر اطمینان [٢٥] نازل فرمایا اور انہیں جلد ہی فتح دے [٢٦] دی۔
ف 2 یہ اسی بیعت رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ نافع سے روایت ہے کہ جس درخت کے نیچے یہ بیعت ہوئی تھی لوگ اس کی زیارت کے لئے جانے لگے حضرت عمر کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس درخت کو کٹوا دیا ابو دائود ترمذی میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا :” جس شخص نے اس بیعت میں حصہ لیا وہ ہرگز دوزخ میں نہ جائے گا۔ (شوکانی) جب ان صحابہ کرام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے گواہی دے دی ہے کہ میں ان سے خوش ہوں پھر وہ بڑا خبیث فرقہ ہے جو ان مقبول بندوں سے ناراض اور ان کے ساتھ بغض و عداوت رکھے۔ (امام الہند) ف 3 تسلی سے مراد وہ قلبی اطمینان ہے۔ جس کی بنا پر ایک شخص کسی تردد کے بغیر اپنے آپ کو سخت سے سخت خطرہ میں جھونک دیتا ہے اور اس پر کسی قسم کی گھبراہٹ طاری نہیں ہوتی۔ یہی تسلیم و رضا کا درجہ ہے۔ (قرطبی)