هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں اطمینان ڈال [٤] دیا تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ مزید اطمینان کا اضافہ کرلیں اور آسمانوں اور زمین کے سب لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
ف 10 یہ اس طرف اشارہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد عام مسلمان بہت رنجیدہ و غمگین تھے لیکن جب اللہ و رسول ﷺكی رضا اسی صلح میں پائی تو خوش ہوگئے اور بعد کے حالات سے ان پر صلح حدیبیہ کا فتح مبین ہونا عیاں ہوتا چلا گیا حتی کہ ان کے دل بالکل مطمئن ہوگئے۔ ف 11 یعنی جوں جوں اللہ و رسولﷺ کی بتائی باتیں حقیقت بن کر ان کے سامنے آتی گئیں، اللہ و رسولﷺ پر ان کا ایمان بڑھتا گیا۔ ایمان میں یہ اضافہ گومصدق بہ کے اعتبار سے بھی ہوسکتا ہے کیونکہ انہیں اللہ اور رسولﷺ کی کسی بات میں شک نہ تھا مگر اصل بات یہ ہے کہ نفس ایمان میں اضافہ تسلیم کیا جائے کہ دلائل کی کثرت سے ایمان میں مزید پختگی حاصل ہوتی ہے۔ ایمان میں کمی و بیشی قرآن کی دوسری آیات اور احادیث سے بھی ثابت ہے صحیح بخاری کتاب الایمان میں امام بخاری نے اس مسئلہ کو مدلل طور پر ثابت کیا ہے۔ ف 12 جیسے فرشتوں جنوں اور انسانوں کی فوجیں۔ ابن عباس(رض) نے اس کی یہی تفسیر بیان کی ہے (قرطبی) ف 13۔ یعنی وہ جیسے چاہتا ہے ہے ان کا انتظام فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے دوسرے پر غالب کرتاہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو جو فتح و کامیابی نصیب ہوئی ہے یا ہو رہی ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے۔ اس میں خود مسلمانوں کا کمال نہیں ہے۔