سورة آل عمران - آیت 165

أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَٰذَا ۖ قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنفُسِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

بھلا جب (احد کے دن) تم پر مصیبت آئی تو تم چلا اٹھے [١٦١] کہ ’’یہ کہاں سے آگئی؟‘‘ حالانکہ اس سے دوگنا صدمہ تم کافروں کو پہنچا چکے ہو۔ ؟ آپ ان مسلمانوں سے کہئے کہ : یہ مصیبت تمہاری اپنی [١٦٢] ہی لائی ہوئی ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5 یعنی احد کے دن جبکہ مسلمانوں کے ستر افراد شہید ہوگئے۔ (ابن کثیر ) ف 1 یعنی جنگ بدر میں جب مشرکین کے ستر آدمی قتل ہوئے تھے اور اتنے ہی قید بن کر آئے تھے۔ (ابن کثیر) ف 2 (ای بذ نو بکم لو بلختیار رکم (القدیر) یعنی تمہاری اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو وجہ سے اور آنحضرت ﷺ کی نافرمانی کی وجہ سے جس کا تیر اندازوں نے اپنی جگہ چھوڑ کر ارتکاب کیا ( قرطبی) دوسری صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ تمہارے فدیہ کو اختیار کرنے سے۔ آنحضرتﷺ نے بدر کے قید یوں کے بارے میں صحا بہ (رض) کر اختیار دیا تھا کہ اگر تم فدیہ لینا چاہتے ہو تو اس کے بدلے آئندہ تمہارے ستر آدمی شہید ہوں گے۔ چنانچہ صحانہ کرام (رض) نے اسے منظور کرلیا تھا۔ قرآن نے یہاں ھوں عندکم کے لفظ سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ (ابن کثیر۔ قرطبی )