سورة البقرة - آیت 38

قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

ہم نے کہا : تم سب کے سب [٥٧] یہاں سے نکل جاؤ۔ پھر جو میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے اور جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 8: تو بہ کی قبولیت کے بعد اس جملہ کا اعاده اس غرض سے ہے کہ اب تم زمین پر ہی رہو اب تمہیں نبوت سے سرفراز کیا جاتا ہے اصل میں اس کا تعلق پہلے’’ اهْبِطُوا‘‘کے ساتھ ہے دوبارہ ’’اهْبِطُوا‘‘کا جملہ لاکر اس ربط کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ ف 9: مخاطب تو آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ ہیں مگر مراد انکی ذریت ہے یعنی تمہارے پاس میری طرف سے انبیاء ورسل وحی کی ہدایت لے کر آتے رہیں گے۔ (ابن کثیر) ہدایت کا یہ سلسلہ آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر محمد رسول اللہ (ﷺ) پر ختم ہوگیا۔ آنحضرت(ﷺ) اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور قرآن مجید آخری کتاب ہدایت ہے۔ تاریخ بخاری اور مستدرک حاکم میں ہے کہ انبیاء کی کل تعداد ایک لا کھ چو بیس ہزار ہے جن میں سے تین سو پندرہ نبی مرسل ہیں۔ (قرطبی) آج ہمارے پاس ہدایت الہی کے دو نوشتے ہیں یعنی کتاب وسنت۔ ان کے ساتھ تمسک سے ہی ہم ضلا لت سے بچ سکتے ہیں۔ ف 10: حزن وہ افسوس جو مافات پر ہوتا ہےاور خوف آئندہ متوقع خطرے سے مقصدیہ ہے کہ متبعین ہدایت آخرت میں تو دنیا کی زندگی پر افسوس کریں گے جیسا کہ کہ کفار کو افسوس ہوگا (الانعام :27) اور قیامت کے احوال وشدائد ہی سے انہیں کوئی اندیشہ ہوگا (النمل :89 الا نبیاء :3)