وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ
اور کافر ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں : اگر یہ (دین) کوئی اچھی چیز ہوتا تو یہ (ایمان والے) اسے قبول کرنے میں ہم سے سبقت [١٥] نہ لے جاتے۔ اور چونکہ انہوں نے اس (قرآن) سے ہدایت نہیں پائی لہٰذا اب یہ ضرور کہیں گے کہ یہ تو پرانا جھوٹ [١٦] ہے۔
ف 8 ’ بلکہ ہم اسے پہلے اختیار کرنے والے ہوتے۔“ یہ بات سردارن قریش مسلمانوں کے بارے میں اس لئے کہا کرتے تھے کہ وہ اپنے آپ کو معزز اور جہاں دیدہ اور مسلمانوں کو ذلیل و ناتجربہ کار سمجھتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں آنحضرت کی پیروی اختیار کرنے والے یا تو غریب طبقہ کے لوگ تھے یا نوجوان ف 9 گویا ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ معیار حق ہم ہیں۔ اگر ہم کسی چیز کو قبول کرلیں تو وہ حق ہے ورنہ سراسر باطل جس میں پرانے زمانے سے لوگ اپنی بیوقوفی کی بدلوت پھنستے رہے ہیں۔