وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ ۚ وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
یہ نبی کے شایان شان نہیں [١٥٧] کہ وہ خیانت کرے۔ اور جو شخص خیانت کرے گا وہ قیامت کے [١٥٧۔ ١] دن اسی خیانت کردہ چیز سمیت حاضر ہوجائے گا۔ پھر ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کچھ ظلم نہ ہوگا
ف 2 اوپر کی آیات میں جہاد كی ترغیب هے اور اس میں جهاد كے احكام كا بیان هے۔(رازی)جنگ احد میں جو تیر انداز اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت کی طرف لپک پڑے تھے بعد میں آنحضرت(ﷺ) نے ان سے حکم عدولی کی وجہ دریافت فرمائی۔ انہوں نے جب کمزور ساعذر پیش کیا ہمیں اندیشہ ہوا کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان مال غنیمت پر قبضہ کرلیں اور ہم محروم رہ جائیں تو آپ(ﷺ) نے فرمایا:(اَ ظَنَنْتُمْ أنَّا نَغُلُّ، ولا نَقْسِم) کہ تم نے یہ کیسے گمان کرلیا کہ ہم مال غنیمت میں غلول کریں گے اور مساوی تقسیم نہیں کرنیگے ۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی غلول شان نبوت کے منافی ہے۔( کبیر) بعض علمائے تفسیر کا بیان ہے کہ بدر کی لڑائی میں کوئی چیز غنیمت سے گم ہوگئی تو کسی نے کہاشاید آپ (ﷺ) نے اپنے لیے رکھ لی ہوگی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (معالم۔ رازی) شان نزول سے معلوم ہوا کہ غلول کے معنی تقسیم میں جور کے بھی آتے ہیں اور یہ بھی غلول ہے کہ تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے کوئی چیز بلا اجازت اٹھالی جائے (قرطبی) اور غل کے معنی کینہ کے بھی آتے ہیں چنانچہ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : اس (آیت )سے مسلما نوں کی خاطر جمع کرنی ہے تا یہ نہ جانیں کہ حضرت(ﷺ) نے ہم کو ظاہر معاف کیا ہے اور دل میں خفا ہیں کبھی خفگی نکا لیں گے۔ (فرمایا) یہ کام نبیوں کا نہیں کہ دل میں کچھ اور ظاہر میں کچھ۔ (مو ضح )