وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ مَّا كَانَ حُجَّتَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتُوا بِآبَائِنَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو اس کے سوا ان کے پاس اور کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ یہ کہہ دیتے کہ :’’اگر تم سچے ہو تو ہمارے آباء و اجداد [٣٧] کو اٹھا لاؤ‘‘
ف 4 یعنی ان کو اتنا شعور نہیں کہ جس چیز کو وہ زمانہ کہتے ہیں وہ خود کوئی چیز نہیں ورنہ بجائے خود اسے آدمی پر کوئی اختیار ہے۔ زندگی اور موت کے جو ظاہری اسباب وہ دیکھتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ ہی نے بنایا ہے اور وہ اسی کے حکم کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اسی حقیقت کو آنحضرت نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آدم کا بیٹا جب زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے تو مجھے تکلیف دیتا ہے کیونکہ زمانہ خد کچھ نہیں میں ہی زمانہ نہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں معاملہ ہے اور میں ہی رات اور دن میں الٹ پھیر کرتا ہوں۔ (شوکانی بحوالہ صحیحین عن ابی ہریرہ) ف 5 یعنی اگر اپنے اس عقیدہ میں سچے ہو کر مرے کے بعد ہم پھر جی اٹھیں گے … یہ کفار کی سب سے وزنی دلیل تھی جو آخرت کی نفی کے لئے وہ پیغمبروں کے لئے سامنے پیش کرتے تھے حالانکہ قیامت سے پہلے فرداً فرداً اس دنیا میں زندہ ہو کر واپس آنے کو قرآن نے محال ور ناممکن بتایا ہے۔ قیامت کے دن دوبارہ زندگی کے مکاں پر عقلی دلائل قائم کئے ہیں جو اٹل اور ناقابل انکار ہیں، رہا آخرت پر ایمان تو اس کا انحصار سراسر انبیاء علیہم السلام کی تصدیق پر ہے۔