سورة آل عمران - آیت 155

إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

جس دن دونوں لشکروں کی مڈ بھیڑ ہوئی تو تم میں سے کچھ لوگ جو پسپا ہوئے تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ ان کی بعض لغزشوں کی بنا پر شیطان نے ان کے قدم ڈگمگا [١٤٨] دیئے تھے۔ بلاشبہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے کیونکہ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2 یہ ٱسۡتَزَلَّکے متعلق ہے اور جملہ اس کی خبر ہے یعنی احد کی دن جو مسلمان میدان جنگ سے ہٹ گئے تو یہ ان کے کئے کی شامت میں’’ یعنی گذشتہ گنا ہوں کا نتیجہ ہے۔ من جملہ ان کے یہ بھی ہے کہ انہوں نے آنحضرت (ﷺ) کی حکم کی مخالفت بھی کی تھی۔ (شوکانی) سلف سے مروی ہے کہ ایک نیک کام کرنے سے دو سرے نیک کام کی تو فیق ملتی ہے اور ایک گناہ دوسرے گناہ کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے۔ ( ابن کثیر) مقصد یہ کے بعض مسلمان جو اس دن بھاگ کھڑے ہوئے وہ اس وجہ سے نہیں بھاگے کہ اسلام سے پھر گئے تھے یا منا فق تھے بلکہ شامت نفس اور اغوائے شیطان کے باعث یہ گنا ہ ان سے سرزد ہوا۔ (وحیدی) ف 3 یعنی جو واقعی دل میں اخلا ص رکھتے تھے ان کی تو بہ اور معذرت کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کردیا۔ اب نہ ان پر کوئی گناہ ہے اور نہ کسی کو طعن کا حق ہے ،۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کسی نے بطور طعن پوچھاکہ کیا حضرت عثمان(رض)کے متعلق یہ صحیح ہےکہ وہ جنگ احد کے دن فرار ہوگئے تھے ؟ حضرت ابن عمر (رض) نے کہا ہاں ہے تو صحیح مگر قرآن نے ان کے لیے عفو اور مغفرت کا اعلان بھی تو کردیا ہے ،۔ لہٰذارا فضیوں کا حضرت عثمان (رض) پر یہ طعن کرنا نری نادارنی اور حماقت ہے۔ ( قرطبی۔ وحیدی )