سورة البقرة - آیت 37

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند کلمات [٥٦] سیکھ کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ بلاشبہ وہ بندوں کی توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 6: یہ کلمات وہی ہیں جن کا ذکر سورۃ اعراف (آیت :23) میں ہے یعنیİ رَبَّنَا ظَلَمْنَا Ĭبعض تابعین نے کچھ ادعیہ ماثورہ بھی نقل کی ہیں اور’’ تَلَقَّى‘‘کے معنی بذریعہ وحی یا الہام اخذ کرلینے کے ہیں۔ ف 7:یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم کی تو بہ قبول فرمائی۔ خالص توبہ کے لیے تین امور شرط ہیں علم، حال اور عمل، گناہ کے ضرر کے احساس کو علم کہا جاتا ہے اور اس احساس کے بعد دل میں جو ندامت پیدا ہوتی ہے اسے حال کہتے ہیں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کہلا تا ہے اس جملہ سے معلوم ہوا کہ گناہ کے اثرات لازمی اور طبعی نہیں جن کی لا محلا لہ سزا مل کر رہے گی کسی چیز کے مؤثر ہونے کا مدار اللہ تعالیٰ کے اختیار اور مشیت پر ہے۔ انسان کے تو بہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے گناہ کے اثر کو ختم کردیا ہے جاتا ہے، (رازی)