سورة آل عمران - آیت 153

إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(اور وہ وقت بھی یاد کرو) جب (جنگ احد میں) تم بھاگے چلے جارہے تھے اور کسی کی طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہ تھے حالانکہ اللہ کا رسول تمہارے پیچھے سے تمہیں بلا رہا تھا۔ پھر اللہ نے تمہیں رنج [١٤١] پر رنج دیئے تاکہ تم ایسی بات پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ ایسی مصیبت [١٤٢] پر غم کرو جو تم پر نازل ہو۔ اور جو کام بھی تم کرتے ہو۔ اللہ ان سے خوب واقف ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 یہ شکست کھائے ہوئے مسلمان کی کیفیت کا ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ میدان جنگ تمہیں پکا رہے تھے الی عباد اللہ مگر تم پہاڑ پر چڑھے چلے رہے تھے اور کسی کی بات پر دھیان نہیں دے رہے تھے۔ یعنی ایک شکست کا غم سے سخت تر تھا۔ پس بغم کے معنی علیٰ غم ہیں اور بعض نے با کو سببیت کے لیے مانا ہے یعنی آنحضرت ﷺ کو مغموم کرنے کی وجہ سے تمہیں غم پہنچا۔ مگر پہلے معنی زیادہ صحیح ہیں۔ ( ابن کثیر۔ شوکانی) ف 6 یعنی تمہیں دوہرے غم میں مبتلا کردیا تاکہ تمہیں نہ تو مال غنیمت کے ہاتھ سے نکل جانے رانج ہو اور نہ شکست ہی پر کببدہ خاطر ہو۔ کیونکہ متواتر سختیوں سے انسان تحمل مشاق کا عادی ہوجاتا ہے۔