وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ
اور وہ (عیسیٰ) تو قیامت کی ایک علامت [٦٠] ہے۔ لہٰذا اس (کے آنے) میں ہرگز شک نہ کرو اور میری پیروی کرو یہی سیدھی راہ ہے۔
ف 3 لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اور بے شک وہ قیامت کی ایک نشانی ہے اس وہ سے مراد اکثر مفسرین (رح) نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا آسمان سے اترنا لیا ہے جس کی خبر بکثرت احادیث میں دی گئی ہے اور بقول شوکانی وہ حد تواترکو پہنچ چکی ہیں اور ابن کثیر (رح) نے بھی ان کو متواتر کہا ہے اور ان کے نزول پر امت کا اجماع بھی ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل حجج الکرامۃ میں مذکور ہے بعض نے ہ کی ضمیر سے مراد قرآن اور بعض نے حضرت عیسیٰ کا بن باپ کے پیدا ہونا لیا ہے۔ اس اعتبار سے قرآن آخری کتاب ہے لہٰذا یہ قیامت کی علامت بن سکتی ہے۔ ( شوکانی) ف 4 یعنی توحید کا راستہ جس کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں۔