سورة آل عمران - آیت 146

وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

کتنے ہی نبی گزر چکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے جہاد کیا۔ ان کو اللہ کی راہ میں جو مصائب درپیش ہوئے ان میں نہ تو انہوں نے ہمت ہاری، نہ کمزوری دکھائی اور نہ ہی (کفر کے آگے) سرنگوں ہوئے۔ ایسے ہی ثابت [١٣٤] قدم رہنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 6 ربییون یہ ربہ کی طرف ہے جس کے معنی جماعت کے ہیں اور یہ جملہ حالیہ ہے ای دمعہ ربییون کثیر استکا نوا۔ یہ سکون سے باب افتعال ہے کاف کے بعد الف بر ائے اشباع ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کون سے استفعال ہو لیکن پہلے اشتقاق کی آیت کے معنی سے زیادہ منا سبت ہے۔ (قرطبی۔) ان تینوں آیتوں سے مقصود ان لوگوں پر عتاب ق اور تنبیہ جو احد کے دن شکست کے آثار دیکھ کر ہمت ہار بیٹھے اور آنحضرت ﷺ کی شہادت کی افواہ سن کر بالکک ہی پست ہوگئے پس فرمایا تم سے پہلے انبیا کے متبعین گزر چکے ہیں ان کی اتباع کرو اور اس قسم کی کمزوری نہ دکھا و (قرطبی ابن کثیر) یعنی ان لوگوں میں بہت سے رتیون اپنے انبیائ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے رہے لیکن انہوں نے اپنی قلت تعداد اور بے سرو سا مانیے باوجود کبھی ہمت نہ ہاری اور نہ کبھی اپنے انبیا کے وفات پا جانے یا شہید ہوجا نے کے بعد کی صورت میں وساوس میں مبتلا ہوئے ہمیشہ اور ہر حال میں صبر و استقلال سے کام لیتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا و آخرت دونوں کے ثواب سے نواز دیا۔