سورة الشورى - آیت 52

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اسی طرح [٧٢] ہم نے اپنے حکم سے ایک روح [٧٣] آپ کی طرف وحی کی۔ اس سے پہلے آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا چیز ہے اور ایمان [٧٤] کیا ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے اس روح کو ایک روشنی بنادیا۔ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہیں اس روشنی [٧٥] سے راہ دکھا دیتے ہیں اور بلاشبہ آپ سیدھی راہ کی طرف [٧٦] رہنمائی کررہے ہیں۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5 یعنی جس طرح پہلے انبیاء پر ہم نے وحی بھیج۔ اسی طرح۔۔۔۔۔ یا وحی کے جو طریقے اوپر مذکور ہوئے ہیں ان سب کے ذریعہ۔۔۔۔۔ ف 6 روح سے مراد قرآن بھی ہے اور حدیث بھی اور قرآن و حدیث کو ” روح“ سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ انہی سے انسان کو اخلاقی زندگی حاصل ہوتی ہے ورنہ وہ اخلاقی اعتبار سے مردہ ہوتا ہے۔ ف 7 یعنی منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پیشتر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ آئی تھی کہ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کتاب نازل کی جائیگی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صفات باری تعالیٰ اور دین و شریعت کی تفصیلی معلومات دی جائیں گی جن پر آپ خود بھی ایمان لائیں گے اور دوسروں کو بھی ایمان لانے کی دعوت دیں گے۔ تفصیلی معلومات کی قید ہم نے اس لئے لگائی ہے کہ وحی سے قبل انبیاء ( علیہ السلام) توحید اور نفس ایمانکے ساتھ متصف ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اہل علم کا مسلک ہے اور انبیاء ( علیہ السلام) کی سیرت کا مطالعہ اس امر کی شہادت کے لئے کافی ہے۔ مزید تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ الضحی : آیت 7)