سورة الشورى - آیت 27

وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر اللہ اپنے سب بندوں کو وافر رزق عطا کردیتا تو وہ زمین میں سرکشی سے اودھم [٤١] مچا دیتے۔ مگر وہ ایک اندازے سے جتنا رزق چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔ یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے، انہیں دیکھ رہا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 کیونکہ اس وقت کوئی کسی کا محتاج نہ ہوتا۔ اس لئے من مانی کا رروائی کرتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ اس نے دنیا میں بندے کو دوسرے کا محتاج بنایا اور لوگ ایک دوسرے کے ساتھ باہم تعاون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ یا ” لبغوافی الارض“ کا مطلب یہ ہے کہ انسان مزید کی حرص کرتا اور بے صبری سے مال جمع کرتا ” لو کان لا بن ادم وادیان من ذھب لا تبغی ثالثا“ گو کسی کے پاس مال کی دو وادیاں بھری ہوں تو وہ تیسری کا خواہش مندہو۔ ( قرطبی) ف 3 اس لئے ہر شخص اپنی حد میں رہنے پر مجبور ہے۔ اب جو بعض بندے اپنی ضروریات سے زیادہ روزی پا کر زمین میں فساد برپا کرتے ہیں تو ان کا یہ فساد استثنائی قسم کا ہے عام فساد نہیں ہے۔