سورة غافر - آیت 34

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللَّهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اس سے پہلے یوسف تمہارے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے، مگر جو کچھ وہ لائے اس کے متعلق تم شک [٤٨] ہی میں پڑے رہے۔ یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئے تو تم کہنے لگے کہ اس کے بعد اللہ ہرگز کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح اللہ ایسے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے جو حد سے بڑھنے والے اور شک کرنے والے ہوں

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٦ یعنی ایسے معجزے جن سے ان کا نبی ہونا قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے۔ جیسے بادشاہ کے خواب کی تعبیر جس کی بدولت نہ صرف مصر بلکہ ارد گرد کے تمام علاقوں کو انتہائی خوفناک قحط سے نجات نصیب ہوئی تھی۔ ف ٧ یعنی گو تمہارے بادشاہ نے انہیں اپنا ویزر بنا کر عملاً تمام اختیارات ان کے سپرد کردیئے تھے اور تم ان کے اخلاق اور ملکی انتظام میں مہارت کے بھی قائل ہوئے مگر تم نے جیتے جی ان کی نبوت کا اقرار نہ کیا بلکہ شک ہی میں پڑے رہے۔ ف ٨ یعنی ان کی وفات کے بعد جب سلطنت کا بندوست بگڑا گیا تو تم ان کی عقیدت کا اظہار کرنے لگے کہ ان کا قدم مصر کے حق میں بڑا مبارک تھا لیکن عقیدت کے اس اظہار میں تم اس قدر بڑھے کہ کہنے لگے کہ بس وہ اللہ کے آخری رسول تھے۔ ان کے بعد کوئی شخص اللہ کی طرف سے رسول بن کر نہیں آسکتا۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یا وہ انکار یا یہ اقرار یہی اسراف اور یا وہ کوئی ہے“۔ ( موضح)