أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
یاد رکھو! بندگی [٣] خالصتاً اللہ ہی کے لئے ہے اور جن لوگوں نے اللہ کے علاوہ کارساز بنا رکھے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ [٤] سے قریب کردیں۔ جن باتوں میں یہ اختلاف [٥] کر رہے ہیں یقیناً اللہ ان کے درمیان فیصلہ کردے گا اللہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور حق کا منکر [٦] ہو۔
ف ١١ یہاں بھی ” دین“ کا لفظ اطاعت و بندگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ خالص دین وہی ہے جس میں شرک کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔ پھر تعجب ہے ان مسلمانوں پر جو ان آیات کی موجودگی میں دوسروں کو پکارتے ہیں اور ان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ ف ١٢ یعنی خالق و مالک تو ہم خدا ہی کو مانتے ہیں مگر دوسروں کی عبادت اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے ذریعہ ہماری خدا تک رسائی ہوجائے اور وہ خدا سے ہماری سفارش کرسکیں۔ قدیم زمانہ سے مشرکین اسی عقیدہ پر چلے آئے ہیں اور یہی شبہ پیش کرتے رہے ہیں۔ ( ابن کثیر) ہمارے زمانہ میں بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو موحد مسلمان کہتے ہیں مگر اولیاء اللہ کو پکارتے ہیں۔ ان کو قبروں پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں اور ان کے نام کی نذر نیاز مانتے ہیں یا دعا میں ان کا بطور وسیلہ ذکر کرتے ہیں ان سب باتوں سے غرض ان کی یہ ہوتی ہے کہ ان بزرگوں کے ذریعہ انہیں خدا تک رسائی حاصل ہو اور وہ خدا سے ان کی سفارش کرسکیں۔ ف ١ یعنی انہیں بتا دے گا کہ کونسا گروہ حق پر تھا۔ آیا وہ خالص اللہ کی عبادت کرتے ہیں یا وہ جو اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک بناتے ہیں۔ ف ٢ جھوٹا نا شکرا وہی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس کے دل میں کفر و شرک ہو اور اس کا مقصد ہی اللہ تعالیٰ پر بہتان رکھناہو وہ کبھی ہدایت یاب نہیں ہو سکتا۔ ( ابن کثیر)