سورة آل عمران - آیت 112

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جہاں بھی یہ لوگ پائے جائیں ذلت ان کے مقدر کردی گئی ہے الا یہ کہ اللہ کی یا دوسرے لوگوں کی ذمہ داری میں پناہ [١٠٢] لے لیں۔ یہ لوگ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں اور محتاجی ان پر مسلط کردی گئی ہے یہ اس لیے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کردیتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نافرمان تھے اور اللہ کی حدود سے آگے نکل جاتے تھے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 یعنی مغلوب ہونے کے ساتھ ان پر ذلت بھی مسلط کردی گئی دیکھئے سورت بقرہ آیت 61 کبیر) بعض کے نزدیک اللہ کی پناہ یہ ہے کہ مسلمان ہوجائیں اور لوگوں کی پناہ یہ کہ معابد اور ذمی بن کر رہیں۔ ( خازن) مگر یہ صحیح نہیں ہے بلکہ دونوں جگہ ہی حبل سے مراد عہد ذمہ اور امان ہے اور منعی یہی ہیں کہ وہ امان میں آجائیں اور معا ہد اور زمنی بن کر رہیں مگر ذمی کو امان حاصل ہوتی ہے وہ دو قسم کی ہے ایک جزیہ کی صورت میں جس پر قرآن نے الا ان یعھو الجزیتہ عن ید وھم صاغر ون (التوبہ 29) فرماکر تنصیص کی ہے اور حبل اللہ سے یہی مراد ہے دوسری وہ جس کی شرائط واختیارات امام اور حکومت کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں یعنی جزیہ میں کمی بیشی اسی کو آیت میں حبل من الناس سے تعبیر فرمایا ہے۔ (کبیر) حضرت شاہ صاحب نے حبل کے معنی دستاویز کے ہیں اور فائدہ میں لکھا ہے یعنی یہود کہیں اپنی اپنی حکومت سے نہیں رہتے دستاویزات اللہ کے کہ بعض رسمیں تورات کی عمل میں لاتے ہیں اور اس کے طفیل پڑے ہیں اور بغیر دستاویز لوگوں کے یعنی کسی کی رعیت میں اس کی پناہ میں پڑے ہیں (موضح) ف 2 یعنی نافرمانی اور اعتد کایہ اثر ہوا کہ لگے کفر کرنے اور پیغمبروں کو مانے اور پھر کفر وقتل انبیا ( علیہ السلام) کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا غضب اترا ذلیل اور محتاج ہوگئے حکومت اور ریاست چھن گئی۔ (وحیدی) حاصل یہ کہ ذلت وغضب اور مسکنت کی علت کفر اور قتل انبیا ہے اور کفر اور قتل انبیا کی علت ان کی نافرمانی اور زیادتی ہے۔ پس ذالک بما عصوا سے علت العلتہ کی طرف اشارہ ہے چنانچہ امام رازی نے لکھا ہے جو شخص ترک آداب کرے گا اس سے ترک سنن کا ارتکاب ہوگا اور ترک سنن کا نتیجہ ترک فرائض کی صورت میں ظاہر ہوگا اور ترک فرائض سے شریعت کی اہانت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ابانت شریعت سے انسان کفر کے گرھے میں گر جاتا ہے۔ (کبیر )