إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِّلظَّالِمِينَ
جسے ہم نے ظالموں کے لئے ایک آزمائش بنا دیا
ف ٨ اس سے دنیا و آخرت دونوں میں ان کی آزمائش ہوگی۔ اس کی آخرت میں آزمائش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب دوزخ میں کھانے کیلئے کوئی چیز نہ ملے گی۔ تو وہ اسی کو کھا کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کریں گے لیکن اسے منہ میں ڈالنا اور حلق سے اتارنا سخت تکلیف دہ بلکہ مستقل عذاب کا باعث ہوگا۔ وہ اسے کھائیں تو مشکل اور نہ کھائیں تو مشکل یہی ان کی آزمائش ہوگی۔ دنیا میں آزمائش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب کافر سنیں گے کہ دوزخ کی آگ میں درخت پیدا ہوتا ہے تو وہ قرآن اور نبی ﷺ کا مذاق اڑا کر اور زیادہ گمراہ ہونگے، چنانچہ جب ابو جہل نے یہ آیا سنیں تو اس نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور انہیں کھجور اور پنیر پیش کرتے ہوئے کہنے لگا“۔ یہ ہے وہ زقوم جس کی محمدﷺ تمہیں دھمکی دے رہا ہے لیکن تم اسے مزے لے لے کر کھائو“۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ( ثم ان لھم علیھا لشوبا من حمیم) تک اگلی آیات نازل فرمائیں۔ ( شوکانی)