سورة البقرة - آیت 30

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (اے پیغمبر! اس وقت کا تصور کرو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا [٣٨] کہ : ’’میں زمین میں ایک خلیفہ [٣٩] بنانے والا ہوں۔‘‘ تو وہ کہنے لگے:’’کیا تو اس میں ایسے شخص کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد مچائے گا اور (ایک دوسرے کے) خون بہائے گا۔[٤٠] جبکہ ہم تیری حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح وتقدیس بھی کر رہے ہیں۔‘‘[٤١] اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ ’’جو کچھ میں جانتا ہوں [٤٢] وہ تم نہیں جانتے۔‘‘

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5۔ اس آیت اور دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملا ئکہ انسان سے الگ اور مستقل ایک مخلوق ہیں اور تدبیر عالم ان کے سپرد ہے۔ اس کا ثبوت بہت سی احادیث سے ملتا ہے حکمائے اشراق بھی ملائکہ کو ایک مستقل نوع مانتے ہیں اس زمانہ کے طبیعین کہتے ہیں کہ ملائکہ کائنات عالم کو قوائے فطر یہ کا نام ہے یہ نظریہ دراصل قدیم علمائے طبیعین کا ہے جن سے آجکل کے تجدد پسند حضرات نے اخذ کیا ہے شیخ بو علی سینا اپنے رسالہ النبوت میں لکھتے ہیں فمن العادہ فی الشر یعتہ تسمتہ القوی اللطیفتہ الغیر المحسو ستہ ملائکتہ۔ شریعت اپنی اصطلاح میں قو سی لطیفہ غیر محسوستہ کو ملا ئکہ سے تعبیر کرلیتی ہے مگر اس نظر یہ کو مان لینے سے ایمان باملائکہ نے حقیقیت ہو کر رہ جاتا ہے۔ ف 6۔ خلیفہ سے مراد جنس آدم بھی ہو سکتی ہے اور انسان کے اللہ تعالیٰ کا خلیفہ (نائب) ہونے کی یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تفو لض کردہ احکام اس کی مرضی کے مطابق چلائے آدم کے فقہ میں اس کو صیغہ فی الا رض قرار دینے سے اوپر کی آیت خلق لکم مافی الا رض جمیعا پر بھی دلیل قائم ہوگئی /(المنار)۔ اور فرشتوں کا یہ استفسار دریافت حال کے لیے تھا نہ کہ بطور اعتراض یا حسد وبغض کے۔ (فتح البیان) ف 7 جیسا کہ حدیث شفاعت کبری میں آدم (علیہ السلام) کے متعلق تحریر ہے اعلمک اسما کلی شیء ( ابن کثیر) اور یہ تعلیم القاء والہام کے ذریعے تھی۔ (فتح القدیر)