وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
اور سورج اپنی مقررہ گزر گاہ پر چل [٣٦] رہا ہے۔ یہی زبردست علیم ہستی کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔
ف ٤( لام بمعنی الیٰ ہے) یعنی قیامت تک چنانچہ جب قیامت آجائے گی تو وہ ٹھہر جائے گا اور اس میں کوئی حرکت نہ رہے گی یا اس کے معنی ہیں۔” اپنے ٹھہرنے کے مقام تک“ اور اس کے ٹھہرنے کا قیام، جیسا کہ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے ہے جیسا کہ ایک حدیث میں حضرت ابو ذر (رض) کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (مستقفرھا تحت العرش) کہ اس کے ٹھہرنے کا مقام عرش کے نیچے ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سورج ہر روز عرش کے نیچے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے اور طلوع کے لئے اذن چاہتا ہے چنانچہ اسے اذن دے دیا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک وقت آئے گا کہ اسے حکم ہوگا ” ارجیع من حیث جنت“ کہ جدھر سے آئے ہو ادھر پلٹ جائو چنانچہ وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی یہ دوسری تفسیر چونکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے اس لئے اسی کو اختیار کرنا ضروری ہے کہ گو امام رازی (رح) نے مستقر کے متعدد معانی بیان کئے ہیں مثلاً یہ کہ سورج اپنے مقررہ راستہ پر چلا جا رہا ہے اور اس سے ادھر ادھر نہیں ہوتا وغیرہ۔ ( کبیر)۔