إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ
بلاشبہ ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں [١٢]۔ ہم ان کے وہ اعمال بھی لکھتے جاتے ہیں جو وہ آگے بھیج چکے اور وہ آثار بھی جو پیچھے [١٣] چھوڑ گئے۔ اور ہم نے ہر چیز کا ایک واضح کتاب [١٤] (لوح محفوظ) میں ریکارڈ رکھا ہوا ہے۔
ف ١ یعنی از اعمال خیر و شر ( فتح الرحمن) پیچھے چھوڑے جانیوالے نشانیوں سے مراد وہ نیکیاں یا برائیاں ہیں جن کے ثواب، گناہ کا سلسلہ آدمی کے مرنے کے بعد بھیزجاری رہے جیسے کوئی شخص ایسا نیک یا بد طریقہ جاری کرے جس پر لوگ اس کے بعد بھی عمل کریں اور ان کے ساتھ ساتھ اسے بھی اس کا ثواب یا گناہ ملتا رہے۔ بعض صحابہ (رض) و تابعین (رض) نے آثار سے مراد پائوں کے نشان لئے ہیں۔ جیسا کہ ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو سلمہ نے جو مدینہ کے ایک گوشہ میں رہتا تھا، یہ چاہا کہ اپنے پرانے گھروں کو چھوڑ کر مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب آ کر آباد ہوجائے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بلایا اور فرمایا ( یا بنی سلمۃ دیار کم تکتب آثار کم) اے بنی سلمہ ! اپنے موجودہ گھروں میں ٹکے رہو۔ تمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے مگر آیت کو عموم پر محمول کرنا زیادہ بہتر ہے یعنی یہ آثار سے مراد پائوں کے نشان بھی ہیں اور خیر و شر کے پیچھے چھوڑے ہوئے نشان بھی ( شوکانی)