وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ
وہاں وہ چیخ چیخ کر کہیں گے : ہمارے پروردگار! ہمیں (اس سے) نکال کہ ہم نیک عمل کریں۔ ویسے نہیں جیسے پہلے کیا کرتے تھے۔ (اللہ تعالیٰ جواب میں فرمائے گا) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں [٤١] دی تھی جس میں اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو کرسکتا تھا ؟ حالانکہ تمہارے پاس ڈرانے والا (بھی) آیا تھا اب (عذاب کا) مزا چکھو یہاں ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
ف ٣” اتنی عمر“ سے مراد ساٹھ برس کی عمر ہے۔ یہی قول حضرت ابن عباس (رض) اور اکثر صحابہ (رض) سے منقول ہے۔ صحیح بخاری کتاب الرقاق میں حضرت ابو ہریرہ (رض) سے ایک مرفوع حدیث میں ہے ( اعذر اللہ الی امری اخرعمرہ حتی بلغ ستین سنۃ) کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا عذرختم کردیا جسے اس نے ساٹھ برس کی عمر دے دی، پس یہی قول اصح ہے اور جن روایات و اقوال میں چھیالیس، ستر اور چالیس برس کی تحدید مذکور ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ ( ملخص از ابن کثیر وغیرہ)۔