مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ
جو شخص عزت چاہتا ہے تو عزت [١٤] تو تمام تر اللہ ہی کے لئے ہے۔ پاکیزہ کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں [١٥] اور صالح عمل انہیں اوپر اٹھاتا ہے اور جو لوگ بری چالیں [١٦] چلتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لئے سخت عذاب ہے، اور ان کی چال ہی برباد ہونے والی ہے۔
ف ١٣ پھر تم اس سے انکار کیونکر کرتے ہو حالانکہ مردہ زمین کو زندہ ہوتے اپنی آنکھوں سے ہمیشہ دیکھتے ہو؟ ابوزین عقیلی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا :” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا؟“ فرمایا :” کیا تم نے کوئی ایسی زمین نہیں دیکھی جس سے تم پہلی دفعہ گزرے تو وہ اجاڑ پڑی تھی اور دوبارہ گزرے تو وہ سبزہ سے لہلہا رہی تھی؟“ میں نے عرض کیا ” جی ہاں“ فرمایا ” اسی طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا۔ ( قرطبی)۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنا چاہے گا تو عرش کے نیچے سے ایک خاص قسم کی بارش ہوگی جس کا پانی پڑتے ہی مردے اس طرح جی اٹھیں گے جیسے ظاہری بارش سے دانہ زمین سے اگ آتا ہے۔ ( ابن کثیر)۔ ف ١٤ لہٰذا اسی سے عزت مانگنی چاہیے۔ کفار بتوں کی عبادت کرتے کہ ان کے لئے عزت کا باعث بنیں۔ ( سورۃ مریم، آیت ٨١) اور بعض ضعف الایمان اور منافق قسم کے مسلمان کفار سے دوستی کرتے کہ دنیا میں با عزت زندگی بسر کرسکیں۔ ( سورۃ نساء آیت ١٣٩) فرمایا کہ اگر عزت چاہتے ہو تو اسی کی اطاعت اور عبادت کر کے عزت طلب کرو، کیونکہ ہر قسم کی عزت اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ عزت ایسی ہے جس کی ساتھ ذلت نہیں ہے۔ ( ابن کثیر وغیرہ) ف ١٥ یعنی اس کے ہاں قبول ہوتا ہے۔ ( فالصعود کنایۃ عن القبول) پاکیزہ کلمہ سے مراد کلمہ توحید ( لا الہ اللہ) بھی ہے اور ہر وہ بات جو پاکیزہ ہوجیسے سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر یعنی تسبیح و تحمید اور ذکر الٰہی ( قرطبی وغیرہ) ف ١٦ یعنی کوئی کلمہ چاہے اپنی جگہ پاکیزہ ہو لیکن قبول اسی وقت ہوتا ہے جب اسکے ساتھ عمل بھی نیک ہو۔ مطلب یہ ہے کہ عمل کا نیک ہونا ” پاکیزہ کلمات“ کی قبولیت کیلئے شرط ہے جیسا کہ بعض آثار سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ اور نیک عمل سے مراد وہ عمل ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو اور اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہی گئی ہو نہ کہ کسی اور کی، بعض مفسرین (رح) نے ” برفعہ“ میں ” یرفع“ کی فعیر پاکیزہ کلموں کیلئے اور ” ہ“ کی ضمیر عمل صالح کیلئے قرار دیتے ہوئے یہ معنی کہے ہیں کہ ” پاکیزہ کلمہ نیک عمل کو بلند کرتا ہے “۔ گویا اللہ تعالیٰ کے ہاں درجہ قبولیت پانے کیلئے پاکیزہ کلمہ اور نیک عمل لازم و ملزم ہیں“۔ ( شوکانی) شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں !” یعنی عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے تمہارے ذکر او بھلے کام چڑھتے جاتے ہیں جب اپنی حد کو پہنچیں گے تببری پر غلبہ حاصل کریں گے کفر دفع ہوگا ( اور) اسلام کو عزت نصیب ہوگی“۔ ف ١ چنانچہ ایک مرتبہ ” دارالندوہ“ میں بیٹھ کر انہوں نے یہ خفیہ سکیم بنائی کہ ہر قبیلے کا ایک ایک آدمی اٹھے اور سب مل کر محمدﷺ پر یک ہارگی حملہ کریں پھر انہوں نے اس کو عملی جامعہ پہنانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچا لیا اور سکیم بنانے والے خود ذلیل و خوار ہوئے اور ان کے بڑے بڑے سردار جنگ بدر میں مارے گئے۔ بعض نے اس سے ریا کار لوگ مراد لئے ہیں۔ ( قرطبی)