سورة فاطر - آیت 9

وَاللَّهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنَاهُ إِلَىٰ بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ كَذَٰلِكَ النُّشُورُ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اللہ ہی تو ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے تو وہ بادل اٹھا لاتی ہیں پھر ہم اس بادل کو کسی مردہ بستی کی طرف چلا کرلے جاتے ہیں اور اس زمین کے مردہ ہونے کے بعد اسے زندہ کردیتے ہیں۔ انسانوں [١٣] کا جی اٹھنا بھی اسی طرح ہوگا۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 11 یعنی ایسے شہر کی طرف جس کی زمین مردہ پڑی ہے اور وہاں کوئی سبزہ اور پیداوار نہیں ہوتی۔ ف 12 اس میں طرح طرح کی سبزیاں، غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں گویا اس میں جان پڑجاتی ہے۔ ف 13 پھر تم اس سے انکار کیونکر کرتے ہو حالانکہ مردہ زمین کو زندہ ہوتے اپنی آنکھوں سے ہمیشہ دیکھتے ہو؟ ابورزین عقیلی (رض) سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا :” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا؟“ فرمایا :” کیا تم نے کوئی ایسی زمین نہیں دیکھی جس سے تم پہلی دفعہ گزرے تو وہ اجاڑ پڑی تھی اور دوبارہ گزرے تو وہ سبزہ سے لہلہا رہی تھی؟“ میں نے عرض کیا ” جی ہاں“ فرمایا ” اسی طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا۔ ( قرطبی)۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنا چاہے گا تو عرش کے نیچے سے ایک خاص قسم کی بارش ہوگی جس کا پانی پڑتے ہی مردے اس طرح جی اٹھیں گے جیسے ظاہری بارش سے دانہ زمین سے اُگ آتا ہے۔ ( ابن کثیر)۔