قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ ۖ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ
آپ ان سے کہئے کہ : میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے واسطے [٧٠] تم دو دو مل کر اور اکیلے اکیلے رہ کر خوب سوچو کہ آیا تمہارے صاحب ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کوئی جنون کی بات ہے؟ وہ تو محض ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں ڈرانے والا [٧١] ہے۔
ف ٥ کفار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو رد کرنے کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مجنوں ہونے کا الزام لگاتے تھے۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ تم لوگ آپس میں سر جوڑ کر یا پھر تنہائی میں بیٹھ کر ہر شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملہ میں غور کرے کہ وہ شخص جس کی راست بازی مشہور تھی اور تم میں سے ہر شخص اسے ” امین“ کہہ کر پکارتا تھا کیونکر ممکن ہے کہ یکایک بائولا ہوجائے اور خدا تک پر بہتان باندھنے لگے؟۔ ف ٦ تاکہ ایسا نہ ہو کہ تم اسی شرک اور کفر کی حالت میں مر جائو اور خدا کے ہاں عذاب کے مستحق قرار پائو۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوہ صفا پر کھڑے ہو کر ” یا صباحاہ“ کہہ کر آواز دی۔ جب قریش آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد جمع ہوگئے تو انہوں نے دریافت کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں کس لئے بلایا ہے ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں یہ کہوں کہ صبح یا شام کو دشمن تم پر حملہ کرنے والا ہے تو میری تصدیق کرو گے ؟ جب سب نے اثبات میں جواب دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانیوالا ہوں“۔ اس پر ابو لہب نے کہا (تبالک الھذاجمعتنا) (ابن کثیر)۔