وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَن تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَن يُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِّثْلَ مَا أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَاجُّوكُمْ عِندَ رَبِّكُمْ ۗ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنے مذہب والے کے سوا کسی کی بات کا اعتبار نہ کرو۔ آپ ان سے کہئے کہ ہدایت وہ ہے جو اللہ کی ہے کہ وہ کسی دوسرے کو بھی وہی کچھ دے دے جو تمہیں دیا یا ہدایت وہ ہے جس سے وہ تمہارے پروردگار کے حضور تم [٦٤] پر حجت قائم کرسکیں۔؟ نیز ان سے کہئے کہ فضل و شرف تو اللہ کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہے دے دے کیونکہ وہ بڑا وسیع النظر اور سب کچھ جاننے والا ہے
ف 7 یہ بھی ان طائفوں کا کلام ہے جن کا اوپر سے ذکر چلا آرہا ہے اور اس سے ان کا مذہبی تعصب اور حسد ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے متبعین کو تاکید کرتے رہتے ہیں الخ ۔مترجم (رح) كی توضیحات سے آیت کو جو مفہوم ظاہر ہوتا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جملہ أَن يُؤۡتَىٰ اور أَوۡ يُحَآجُّوكُمۡکا تعلق لَا تُؤۡمِنُوٓاْسے ہے ای لِئَلَّا يُؤْتَى اولِئَلَّا يُحَاجُّوكُمْ مگر امام طبری (رح) نے ایک دوسری توجیہ اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ دونوں جملےلَا تُؤۡمِنُوٓاْکے تحت ہیں اور معنی یہ ہیں کہ اپنے هم مشرب کے سوا کسی کی بات پر یقین نہ کرو نہ یہ تسلیم کرو کہ تمہاری طرح کسی کو علم وفضل ملا ہے اور نہ یہ مانو کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے حضور جا کر تم پر کوئی حجت قائم کرسکیں گے بایں صورتİقُلۡ إِنَّ ٱلۡهُدَىٰالخ Ĭجملہ معتر ضہ هوگا اوراس کا ربطİقُلۡ إِنَّ ٱلۡفَضۡلَ بِيَدِ ٱللَّهِĬکے ساتھ ہوگا۔ (ابن کثیر۔ ابن جریر) یہاں تک ان کی خیانت دینی اور مذہبی تعصب کا بیان تھا۔ اب اگلی آیت میں ان کی خیانت مالی اور مسلمانوں سے بغض کا بیان ہے۔ (کبیر )