قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
آپ ان سے کہئے کہ :’’میرا پروردگار اپنے بندوں میں جس کے لئے چاہے رزق فراخ کردیتا [٥٩] ہے اور جس کے لئے چاہے کم کردیتا ہے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو تو وہی اس کی جگہ تمہیں اور دے دیتا [٦٠] ہے اور وہی سب سے بہتر رازق [٦١] ہے‘‘
ف ٥ یعنی رزق کی تنگی اور فراخی، عزت اور بے عزتی کا معیار نہیں ہے بلکہ اس کا معیار ایمان اور عمل صالح ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ کامیابی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا مطیع اور فرمانبردار ہو اور اسے دنیا میں قناعت اور بقدر کفایت رزق حاصل ہو۔ ( ابن کثیر) ف ٦ خرچ سے مراد ایسا خرچ ہے جس میں نہ اسراف ہو اور نہ بخل۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (انفق یا ابن ادم انفق علیک) بندے خرچ کر، ہیں تجھ پر خرچ کرونگا۔ دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر روز صبح کے وقت دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے۔ (اللھم اطفسکا تلفا) اور دوسرا کہتا ہے ( اللھم اعط منفقا خلفا) کہ اے اللہ بخل کرنے والے کے مال کو ہلاک کر اور خرچ کرنے والے کو اسکا بدل عطا فرما۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (انفق بلا لا ولا تخش من ذی العرش اقلالا ) (ابن کثیر)