فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ
پھر جب ہم نے سلیمان پر موت کا فیصلہ کردیا تو جنوں کو گھن کے کیڑے کے سوا کسی چیز نے سلیمان کی موت کا پتہ نہ دیا' جو ان کے عصا کو کھائے جارہا تھا۔ پھر جب وہ گر پڑا تو جنوں [٢٣] پر واضح ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ایسے ذلت کے عذاب میں نہ پڑے رہتے۔
ف ١٢ یا ( لوگوں پر) جنوں کا حال کھل گیا۔ ممکن ہے یہ جن اپنے آپ کو غیب دان سمجھتے ہوں یا لوگوں کا ان کے بارے میں عقیدہ ہو کہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں۔ یہ دونوں احتمال صحت کے ساتھ ثابت ہیں۔ ( قرطبی)۔ ف ١٣ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) پر موت ایسی حالت میں طاری ہوئی جب وہ ایک لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے۔ ایک لمبی مدت گزرنے کے بعد اس لاٹھی کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلی ہو کر ٹوٹ گئی تو ان کا جسم زمین پر آرہا، اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ آیت کا یہی مطلب حضرت ابن عباس (رض) اور دوسرے مفسرین (رح) نے بیان کیا ہے۔ اس بارے میں ایک مرفوع بھی آئی ہے مگر اس کی سند صحیح نہیں ہے۔ ( ابن کثیر)