يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًا
اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں [١٠٧] نے موسیٰ کو اذیت پہنچائی تھی۔ پھر اللہ نے موسیٰ کو ان کی بنائی ہوئی باتوں سے بری کردیا اور وہ اللہ کے ہاں بڑی عزت [١٠٨] والے تھے۔
ف ٥ اوپر بتایا کہ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دینے والے ملعون اور معذب ہونگے۔ اب یہاں مومنین کو تنبیہ کی وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہ کریں جیسا رویہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ اختیار کیا تھا۔ ” ستانے“ سے مراد زبان سے کوئی بد تمیزی کی بات کہنا بھی ہے اور ہاتھ سے تکلیف دینا بھی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں میں کچھ مال غنیمت تقسیم فرمایا۔ ایک انصاری کہنے لگا ” یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس میں خدا کی خوشنودی کا خیال نہیں رکھا گیا “۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس کا علم ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ سرخ ہوگیا اور فرمایا :” موسیٰ ( علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو انہیں اس سے بھی زیادہ ستایا گیا مگر انہوں نے صبر کیا۔“ ” ستانے“ سے مراد اس قسم کی تمام باتیں ہو سکتی ہیں ( ابن کثیر) حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو ستانے کے سلسلہ میں مختلف واقعات منقول ہیں۔ بخاری میں ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) بہت حیادار تھے اور اپنے بدن کو کبھی کھلا نہ رکھتے تھے۔ اس وجہ سے بعض لوگوں نے مشہور کردیا کہ ان کے بدن پر کوئی برص وغیرہ کا عیب ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خرق عادت کے طور پر ان کے بے عیب ہونے کو ظاہر کردیا۔ یعنی ایک دن ایسا ہو کہ وہ ایک پتھر پر اپنے کپڑے رکھ کر نہانے لگے غسل سے فارغ ہو کر کپڑے پہننے پتھر کی طرف چلے تو وہ پتھر کپڑوں سمیت بھاگنے لگا۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) بھی ” ثوبی حجر“ ( اور پتھر میرے کپڑے) کہتے ہوئے اس کے پیھے دوڑے حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) میں کوئی جسمانی عیب نہیں ہے۔ ( کبیر)