إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۗ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ
بلاشہ حضرت ابراہیم سے قریب تر وہ لوگ تھے جنہوں نے ان کی پیروی کی (پھر ان کے بعد) یہ نبی اور اس پر ایمان لانے [٦١] والے ہیں اور اللہ ایمان لانے والوں کا ہی حامی و مددگار ہے
ف 2مطلب یہ کہ اگر تم اس معنی میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو یہود یا نصرانی کہتے ہو کہ ان کی شریعت تمہاریشریعت سے ملتی جلتی ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ شریعت محمدی کو شریعت ابراہیمی سے زیادہ منا سبت ہے۔ تو اس اعتبار سے مسلمانوں کو یہ کہنے کا تم سے زیادہ حق پہنچتا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) ہمارے طریق پر تھے۔ (وحیدی) ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت( ﷺ) نے فرمایا:( إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ وُلَاةٌ مِنَ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ وَلِيِّي مِنْهُمْ أَبِي وَخَلِيلِي)کہ انبیا میں سے هر نبی كا كوئ نه كوئ دوست هوا هے جس سے ان كا خصوصی تعلق هے اور میرا تعلق میرے باپ اور خلیل حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) سے ہے پھر آپ(ﷺ) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن جریر۔ ترمذی)