لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا
اس (حکم) کے بعد آپ پر دوسری [٨٤] عورتیں حلال نہیں اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ آپ ان میں کسی کو تبدیل کریں خواہ ان کا حسن آپ کو کتنا ہی اچھا لگے۔ البتہ کنیزوں [٨٥] کی آپ کو اجازت ہے اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔
ف ١ مفسرین کا بیان ہے کہ جب ” ازواج مطہرات“ نے دنیا کے مقابلے میں آخرت کو اختیار کرلیا کما مترفی آیۃ التخیر تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ بدلہ دیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ان کے ماسوا اور عورتوں سے نکاح کرنا حرام فرما دیا اور یہ بھی منع کردیا کہ ان میں سے کسی ایک کو طلاق دے کر اس کی بجائے کسی دوسرے عورت سے نکاح کیا جائے۔ یہ آیت حضرت حفصہ (رض) کی طلاق کے واقعہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : اس آیت میں نفس طلاق سے منع نہیں فرمایا، بلکہ ممانعت اس کی ہے کہ طلاق اس مقصد سے ہو کہ اس کی بجائے کسی دوسری عورت سے نکاح کیا جائے۔ (ابن کثیر) مگر یہ حرمت اوپر کی آیت ” انا حللنا لک الخ“ سے منسوخ ہوگئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوسری عورتوں سے نکاح کی اجازت دے دی گئی۔ ( قرطبی) ابن جریر طبری نے اس آیت کی دوسری تفسیر اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ آیت انا حللنا الخ میں جن عورتوں کی حلت مذکور ہوتی ہے ان کے علاوہ کسی اور عورت سے نکاح جائز نہیں ہے۔ یہ معنی اقرب معلوم ہوتے ہیں۔ ( ابن کثیر)۔ ف ٢ ان سے تمتع کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اجازت ہے۔ سراری میں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرم میں دو لونڈیاں مشہور تھیں۔ ایک ماریہ قبطیہ (رض) اور دوسری ریحانہ (رض)۔