مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا
مومنوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد [٣٢] کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی تو اپنی ذمہ داری [٣٣] پوری کرچکا ہے اور کوئی موقع کا انتظار کر رہا ہے۔ اور انہوں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
ف ٩ اس اقرار سے مراد وہ اقرار ہے جو مدینہ منورہ کے انصار (رض) سے ” لیلہ عقبہ“ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا اور وہ یہ تھا کہ آخر دم تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت و مدافعت ہیں اپنی جانیں تک قربان کردیں گے یا اس سے مراد بعض ان لوگوں کا عہد ہے جو کسی وجہ سے غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اور انہوں نے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمائش کا موقع دیا تو وہ ثابت قدم رہیں گے اور پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔ حضرت انس (رض) بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا انس (رض) بن نضر غزوۂ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اس کا انہیں بڑا رنج ہوا اور کہنے لگے کہ اب اگر کوئی جنگ ہوئی تو اللہ دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ چنانچہ غزوۂ احد میں شریک ہوئے اور پھر لڑتے شہید ہوگئے ان کے بدن پر تلوار، تیر اور نیزے کے اس سے زیادہ زخم پائے گئے۔ ان کی بہن ربیع بنت نضر کہتی ہیں کہ میں اپنے بھائی کو صرف ان کی انگلیوں کے پوروں سے پہچان سکی۔ یہ آیت ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ ( ابن کثیر)۔ ف ١٠ یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کرچکے ہیں جیسے حضرت حمزہ (رض) اور انس (رض) بن نضر وغیرہ جو جنگ احد میں شہید ہوچکے تھے۔ ( ابن کثیر) ف ١١ کہ کب کوئی موقع ملتا ہے جس میں وہ اپنی جان کی قربانی پیش کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنا کیا ہوا عہد پورا کریں۔ ف ١٢ جیسا کہ منافقین نے اپنا عہد بدل ڈالا، بلکہ اس پر پوری طرح ثابت قدم رہے حتیٰ کہ شہید ہوگئے یا اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔