يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
وہی آسمان سے زمین تک کے انتظام کی تدبیر کرتا ہے۔ پھر ایک روز جس کی مقدار تمہارے حساب سے ایک ہزار سال ہے وہی انتظام [٦] اس کی طرف اٹھ جائے گا
ف ٣ یعنی آسمان سے زمین تک تمام کام اسی کے قف اور قدر سے چل رہے ہیں۔ وہ آسمان کے بلند ترین حصہ سے زمین کے پست ترین حصہ تک اپنا حصہ نازل کرتا ہے جیسے فرمایا (یتنزل الا مر بینھن) ( طلاق : ١٢) کہ اس کا حکم ان زمین و آسمان کے درمیان اترتا ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ عرش محل تدبر ہے۔ یعنی وہاں ہر چیز کی تدبیر ہوتی ہے اور مادون العرش یعنی آسمانوں میں اس کی تفصیلات طے کی جاتی ہیں۔ ( دیکھئے سورۃ رعد آیت ٢) اور پھر ان تفصیلات کو آسمانوں سے نیچے اتار کر ان کی تعریف کی جاتی ہے۔ جیسے فرمایا ( ولقد صر فناہ بینھم لیذکروا) (قرطبی)۔ ف ٤ مراد قیامت کا دن ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے حضور تمام انسانوں کی پیشی ہوگی۔ سورۃ معارج ( آیت ٤) میں قیامت کے دن کی مقدار پچاس ہزار برس فرمائی ہے جس کے معنی یا تو یہ ہیں کہ شدت خوف سے کفار کو قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا معلوم ہوگا۔ یا یہ کہ قیامت کے دن میں پچاس مرحلے ہوں گے جن میں سے ہر مرحلہ ہزار برس کا ہوگا۔ ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین (رح) نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ فرشتہ بندوں کے اعمال لے کر ایک دن میں اللہ تعالیٰ کے حضور ( یعنی اس جگہ کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے اعمال کے لیے مقرر کی ہے) صعود کرتا ہے۔ آنے اور جانے میں جتنی مسافت وہ طے کرتا ہے اسے اگر کوئی غیر فرشتہ طے کرے تو ہزار برس صرف ہوجائیں؟ کیونکہ آسمان سے زمین تک پانچ سو برس کی مسافت ہے یا یہ کہ اوپر چڑھنے کی مسافت بھی ایک ہزار سال ہے اور نیچے اترنے کی مسافت بھی اس کے برابر ہے اس صورت میں سورۃ معارج کی آیت سے قیامت کا دن مراد ہوگا اور اس آیت سے وہ متعارض نہیں رہے گی۔ بعض علماء نے تفسیر نے یہ بھی بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ ایک دن کے اندر ایک ہزار سال کے امور کی تدبیر کر کے فرشتوں کو القا کردیتا ہے اور فرشتے اسے سر انجام دیتے رہتے ہیں پھر اس کے بعد دوسرے ہزار سال کی تدبیر اتر آتی ہے، اسی طرح یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ ( قرطبی، شوکانی) موضح میں ہے بڑے بڑے کام کا حکم عرش سے مقرر ہو کر نیچے اترتا ہے۔ سب اسباب اس کے آسمان اور زمین سے جمع ہو کر بن جاتا ہے پھر ایک مدت جاری رہتا ہے پھر اٹھ جاتا ہے اللہ کی طرف دوسرا رنگ اترتا ہے جیسے بڑے بڑے پیغمبر جن کا اثر قرنوں تک رہا، بڑی قوم میں سرداری جو عمروں چلے وہ ہزار برس اللہ کے ہاں ایک دن ہے۔