وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ
اور جب ان پر سائبانوں جیسی کوئی موج چھا جاتی ہے تو اللہ کی مکمل حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خالصتاً [٤٣] اسے پکارتے ہیں پھر جب وہ انھیں بچا کر خشکی تک لے آتا ہے تو پھر کچھ ہی لوگ حد اعتدال پر رہتے [٤٤] ہیں اور ہماری نشانیوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو غدار [٤٥] اور ناشکرے ہوں۔
ف 14 یعنی سمندر میں مصیبت پڑنے کے وقت اللہ تعالیٰ کی بندگی کا جو اقرار اس نے کیا تھا اس پر قائم رہت اہے۔ اصل میں ” اقتصاد“ کے معنی راست روی اور میانہ روی کے ہیں اور یہ لفظ ظالم کے مقابل ہمیں بھی اسعتمال ہوا ہے۔ (دیکھیے سورۃ فاطر (آیت 32) بعض مفسرین نے اس کے معنی ” کافر“ کئے ہیں کیونکہ سورۃ عنکبوت (آیت 65) میں ہے۔ ” فلما نجاھم الی البر اذا ھم یشرکون“ ” تو جب اس نے انہیں نجات دی تو اچانک وہ شرک پر اتر آئے۔“ مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ (ابن کثیر) ف 1 یعنی جو مصیبت کا وقت ٹل جانے پر سب کچھ بھول جاتے ہیں اور اپنے قول و قرار کا بھی کوئی پاس نہیں کرتے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ پہلے جملہ میں ’ دمقتصد“ کے معنی راست روی اختیار کرنے والے ہی کے ہیں۔ (شوکانی)