وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ
اور اپنی چال میں اعتدال ملحوظ رکھو اور اپنی آواز پست [٢٥] کرو۔ بلاشبہ سب آوازوں سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔
ف 2 یعنی شریف لوگوں کی طرح وقار اور سکون سے چلا کر جیسا کہ دوسری آیت میں اہل ایمان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے۔ کہ یمشون علی الارض ہونا کہ وہ زمین پر وقار و سکون سے چلتے ہیں۔ (فرقان 63) تیز چلنا جبکہ اس کی ضرورت ہو اور اس میں اعتدال پایا جائے۔ ” وقار“ کے خلاف نہیں ہے۔ آنحضرت جب چلتے تو تیز چلتے اور آگے کو زور دیتے ہوئے چلتے گویا آپ ڈھلان سے اتر رہے ہیں۔ (شوکانی) ف 3 یعنی شریف لوگوں کی طرح پرسکون اور دھیمے لہجہ میں بات کر، نہ کہ گدھے کی طرح چلا کر، اس لئے کہ چلا کر بولنے سے سننے والے کو تکلیف ہوتی ہے۔ (شوکانی) ف 4 کیونکہ وہ چلا کرہوتی ہے۔ یہاں پر حضرت لقمان کے نصائح ختم ہوئے آگے پھر توحید کے دلائل اور مشرکین کی توبیخ و تبکیت کی طرف رجوع کیا جس کے ساتھ سورۃ کی ابتدا ہوئی تھی (شوکانی)