وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
اور ہم [١٦] نے انسان کو اپنے والدین سے (نیک سلوک کرنے کا) تاکیدی [١٧] حکم دیا۔ اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری سہتے ہوئے ( اپنے پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور دو سال اس کے دودھ [١٨] چھڑانے میں لگے (اسی لئے یہ حکم دیا کہ) میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی (آخر) میرے پاس ہی (تجھے) لوٹ کر آنا ہے۔
ف 4 اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے ساتھ والدین کی شکر گزاری کا حکم دینا ان کے حق کے بڑا ہونے کی دلیل ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں :” یہ کلام بیچ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لقمان نے بیٹے کو ماں باپ کا حق نہ کہا تھا کہ اپنی غرض معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک سے پیچھے اور نصیحتوں سے پہلے ماں باپ کا حق نہ کہا تھا کہ اپنی فرض معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک سے پیچھے اور نصیحتوں سے پہلے ماں باپ کا حق فرما دیا کہ اللہ کے حق کے بعد ماں باپ کا حق ہے اور رسول اور مشرد کا حق اللہ ہی کی طرف سے ہے کہ اس کے نائب ہیں۔ (نیز دیکھیے سورۃ اسرائیل آیت 24۔23 و عنکبوت آیت 8) ف 5 اس لئے معلوم ہوا کہ بچے کی مدت رضاعت دو سال ہے اور اس کو سورۃ بقر میں رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت قرار دیا گیا ہے۔ دیکھیے آیت 233) سورۃ لقمان کی اس آیت سے حضرت ابن عباس اور دوسرے اہل نے یہ استنباط بھی کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ جیسا کہ سورۃ احقاف کی آیت وحملہ و فصالہ ثلاثون شھراً سے معلوم ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 6 تاکہ تیرے اعمال کا حساب لیا جائے۔ اگر شکر کرے گا تو اس کی جزا اور ناشکری کرے گا تو اس کی سزا پائے گا۔ “