إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
(اور وہ اللہ کی تدبیر ہی تھی) جب اس نے عیسیٰ سے فرمایا : '' عیسیٰ اب میں تجھے واپس لے لوں گا اور تجھے اپنی طرف اٹھا لوں گا اور ان کافروں سے تجھے پاک کردوں گا اور جو لوگ تیری پیروی کریں گے انہیں تاقیامت ان کافروں [٥٣۔ الف] پر غالب رکھوں گا اور تم سب کو بالآخر میرے ہی پاس آنا ہے تو میں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کردوں گا جن میں تم [٥٤] اختلاف کر رہے ہو
ف 2 التوفی کے معنی کسی چیز کو پورا پورا لینے اور وصول کرلینے کے ہیں، اور یہ اس لفظ کے اصل معنی ہیں۔ اس بنا پر آیت میں’’ مُتَوَفِّيكَ ‘‘ کے معنی ہیں میں تمہیں پورا پورا لینے والا ہوں۔ اور یہ اسی صوت میں ہوسکتا ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کو روح مع البدن اٹھا لیا جاتا۔ دہلوی متراجم ثلاثہ میں بھی توفی کے اس مفہوم کو ملحوظ رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے اور اس کی ایک توجیہ وہ ہے جو مترجم (رح) نے اختیار کی ہے۔ یوں تو قرآن میں اس کے معنی سلادینا بھی آئے ہیں۔ جیساکہ آیتİ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ Ĭ (الف م آیت 60) اور آیتİ وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا Ĭ (الزمر 42) میں مذ کور ہے شیخ الا سلام ابن تیمیہ نے’’ الجواب الصحیح‘‘ میں لکھا ہے کہ لغت عرب توفی کے معنی استیفا اور قبض کے آئے ہیں اور یہ نیند کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور موت کی صورت میں بھی۔ اور یہ’’ توفی الروح مع البدن جمیعا‘‘ کے لیے بھی آتا ہے۔ اور اس آیت میں یہی معنی مراد ہیں حضرت ابن عباس سے بھی اصح روایت میں منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) آسمان پر زندہ اٹھائے گئے۔( روح) پھر قریب قیامت کے زمانہ میں حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) کا نزول اور دجال کو باب لدّ میں قتل کرنا متواتر احادیث سے ثابت ہے اور امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے۔ (ابن کثیر تلخیص) آج تک کوئی مسلمان اس کا قائل نہیں ہوا کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) مر گئے ہیں اور دوبارہ آسمان سے نزول نہیں فرمائیں گے۔ (وحیدی) اور آنحضرت( ﷺ) نے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:( إِنَّ عِيسَى لَمْ يَمُتْ وَإِنَّهُ رَاجِعٌ إِلَيْكُمْ)۔ کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے وفات نہیں پائی اور وہ لوٹ کر آئیں گے۔ (ابن کثیر، ابن جریر) بقیہ بحث کے لیے دیکھئے۔ (النسا آیت 58) ف 3 حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے اول تابع نصاری ٰ تھے پیچھے مسلمان سو ہمیشہ غالب رہے۔ ( موضح) حافظ ابن كثیر لکھتے ہیں ان سے مراد صرف نصاریٰ بھی ہو سکتے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ یہود جو مسیح ( علیہ السلام) کے منکر ہیں ان پر عیسائی ہمیشہ غالب رہیں گے۔ (تفسیر ابن کثیر )