سورة الروم - آیت 39

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور جو کچھ تم بطور سود دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال سے تمہارا مال بڑھتا رہے تو ایسا مال اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا [٤٤]، اور جو کچھ تم اللہ کی رضا چاہتے ہوئے بطور زکوٰۃ دیتے ہو۔ تو ایسے ہی لوگ اپنے مال کو دگنا چوگنا کر رہے [٤٥] ہیں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 9 یعنی ان کے مال و دولت میں شامل ہو کر بیٹھ جائے۔ ف 10 یعنی اللہ تعالیٰ اس میں کوئی برکت نہیں دیتا بلکہ وہ آدمی کے لئے دنیا و آخرت دونوں میں وبال اور لعنت کا سبب بنتا ہے۔ بعض مفسرین (جیسے قتادہ ضحاک اور عکرمہ وغیرہ) كا خیال ہے کہ اس آیت میں رِبًا سے مراد وه سود نہیں جو شرعاً حرام کیا گیا ہے بلکہ اس سے وہ عطیہ یا تحفہ مراد ہے جو آدمی دوسرے کو اس نیت سے دے کہ وہ بعد میں اس سے زیادہ واپس کرے گا۔ ایسا عطیہ دینا حرام نہیں ہے لیکن اس کا کوئی ثواب بھی نہیں ملتا۔ ان کے خیال میں İ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِĬ (وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا) کا یہی مطلب ہے۔ واللہ اعلم (قرطبی) ف 11 دس گنے سے سات سو گنے تک دراصل اس بڑھوتری کا انحصار انسان کی نیت اور جذبہ پر ہےجیسا اس كا جذبه اور نیت هوگی ویسی هی بڑھوتی اسے نصیب ہوگی۔(دیکھئےسورہ بقرہ آیت245)