وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ
اور جب ہم انھیں اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو یہ اترانے [٤٠] لگتے ہیں۔ اور جب ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے انھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو آس توڑ بیٹھتے ہیں۔
ف 6 یعنی ہمت ہار بیٹھتے ہیں کہ اب کوئی نہیں جو ہماری مصیبت ٹال سکے۔ یہ کافر کی حالت ہے کہ سختی کے وقت مایوس ہوجاتا ہے اور عیش و آرام کے وقت تکبر و غرور کرنے لگتا ہے بہت سے کمزور ایمان والوں کا بھی یہی حال ہے مگر مومن کا حال اس کے برعکس ہے۔ اسے جب عیش و آرام میسر ہوتا ہے تو اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور جب مصیبت یا تنگی پہنچی ہے تو صبر و تحمل سے کام لیتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا : مومن کی ہر حالت پر تعجب ہے اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ خیر کا موجب ہے جب اسے عیش و آرام نصیب ہوتا ہے تو شکر کرتاہے۔ یہ بھی اس کے حق میں خیر ہے۔ اگر رنج و تکلیف پہنچتی تو صبر کرتا ہے اس میں بھی اس کے لئے بہتری اور ثواب ہے۔ (ابن کثیر، قرطی)