سورة آل عمران - آیت 44

ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ غیب کی خبریں ہیں جو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کی طرف وحی [٤٤۔ ا لف] کر رہے ہیں۔ آپ اس وقت ان لوگوں کے پاس موجود تو نہ تھے جب وہ اپنے اپنے قلم (اس فیصلے کی خاطر) پھینک رہے تھے کہ ان میں مریم کا سرپرست کون بنے۔ نہ ہی آپ اس وقت ان کے پاس موجود تھے جب وہ [٤٥] باہم جھگڑا کر رہے تھے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 یعنی یہ غیب کی باتیں ہیں جن کا علم آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی وحی کے سوا کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوسکتا تھا لہذا ان باتوں کا صحیح صحیح بیان کرنا آپ ﷺ کو رسول ہونے کے صریح دلیل ہے۔ (ابن کثیر۔ کبیر) ف 4 اس قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) یہودیوں کے بہت بڑے عالم عمراب کی بیٹی تھیں۔ جن ان کی والدہ نے انہیں اپنی عبادت گاہ کی نذر کیا تو عبادت گاہ کے مجاوروں میں جھگڑا ہوا کہ ان کی سرپرستی اور نگرانی کا شرف کون حاصل کرے، آ خر کار انہوں نے قرعہ اندازی کی اور قرعہ حضرت زکریا ( علیہ السلام) کے نام نکلا۔ (ابن کثیر، قرطبی)