إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ مَن جَاءَ بِالْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اے نبی! بلاشبہ جس (اللہ) نے آپ پر قرآن (پر عمل اور اس کی تبلیغ) [١١٥] فرض کیا ہے وہ آپ کو (بہترین) [١١٦] انجام کو پہنچانے والا ہے۔ آپ ان (کافروں) سے کہئے کہ : میرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت [١١٧] لے کر آیا ہے اور کون واضح گمراہی میں پڑا ہے۔
ف11۔ یا ” جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کے احکام و فرامین پر عمل کرنافرض کیا۔ اس کے یہ دونوں مطلب مفسرین (رح) نے بیان کئے ہیں۔ (شوکانی) ف12۔ مراد ہے مکہ کی طرف۔ اکثر مفسرین (رح) نے یہی مفہوم بیان کیا ہے۔ ضحاک (رح) کہتے ہیں کہ ہجرت کے وقت جب نبیﷺ مکہ سے نکل کر حجفہ پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں مکہ کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (شوکانی) اس میں فتح مکہ کی خوشخبری دی ہے۔ (قرطبی) یہ آیت اتری ہجرت کے وقت۔ یہ تسلی فرمائی کہ پھر مکہ آئو گے سو خوب طرح آئے پورے غالب ہو کر۔ (موضح) بعض نے ” مَعَادٍ “ سے مراد موت اور بعض نے جنت لی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی تفسیر ” آخرت“ سے بھی کی ہے۔ دراصل فتح مکہ ہی قرب موت کی علامت تھی جیسا کہ سورۃ İ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِĬكی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے مکہ کی طرف لوٹنا موت سے کنایہ ہوسکتا ہے اور موت ذریعہ ہے عالم آخرت میں پہنچنے کا، جس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت کے اعلیٰ مقام میں پہنچ جائیں گے۔ لہٰذا ان اقوال میں اختلاف نہیں ہے۔ (ابن کثیر) ف13۔ یہ دراصل کفار مکہ کا جواب ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو İ إِنَّكَ لَفِي ضَلَالِĬ کہتے تھے۔