وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ ۖ لَوْلَا أَن مَّنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۖ وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ
اب وہی لوگ جو کل تک قارون کے رتبہ کی تمنا کر رہے تھے، کہنے لگے'': ہماری حالت پر افسوس! اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کا چاہے رزق کشادہ [١١١] کردیتا ہے اور جس کا چاہے تنگ کردیتا ہے۔ اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا۔ افسوس! اصل بات یہ یہی ہے کہ کافر لوگ فلاح نہیں پاسکتے
ف3۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کسی کو رزق زیادہ دینے کا مطلب لازماً یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کسی کا رزق تنگ کرتا ہے تو اس کا مطلب لازماً یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہے۔ بسا اوقات بے پناہ دولت انسان کی تباہی کا موجب بن جاتی ہے اور بسا اوقات تنگی انسان کے صبر و شکر کا امتحان لینے کے لئے آتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ مال تو اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور مبغوض دونوں کو دے دیتا ہے مگر ایمان کی دولت اسی کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ کا محبوب ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) ف4۔ یعنی ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ دنیا کی خوشحالی اور دولت مندی ہی بڑی کامیابی ہے اور اس بنا پر ہم قارون کو بڑا بانصیب آدمی خیال کرتے تھے۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ ہمارا یہ سمجھنا غلط تھا۔ اصل کامیابی اور حقیقی فلاح کچھ اور ہی ہے جو کافروں کو نصیب نہیں ہوتی بلکہ صرف اہل ایمان کے حصہ میں آتی ہے۔