إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِن قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ
بلاشبہ قارون موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) سے تھا : پھر وہ اپنی قوم کے خلاف ہوگیا (اور دشمن قوم سے مل گیا) اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیئے تھے جن کی چابیاں ایک طاقتور جماعت بمشکل اٹھا سکتی تھی۔ [١٠١] ایک دفعہ اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا'': اتنا اتراؤ نہیں'' [١٠٢] اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
1۔ اوپر بیان فرمایا تھا کہ جو کچھ مال و دولت یا اقتدار تمہیں حاصل ہے۔ یہ دنیا کا چند روزہ فائدہ ہے لہٰذا انسان کو اس پر مغرور نہیں ہونا چاہئے۔ اب قارون کا قصہ اس پر بطور دلیل پیش کیا۔ (قرطبی) نخعی (رح)، قتادہ (رح) اور دوسرے مفسرین (رح) کہتے ہیں کہ قارون حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا اور یہی بات بائیبل کتاب خروج (باب 6) میں مذکور ہے۔ بعض مفسرین اسے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا خالہ زاد بھائی بتاتے ہیں۔ (فتح القدیر) بہرحال وہ بنی اسرائیل میں سے تھا۔ لیکن منافق ہو کر فرعون سے مل گیا تھا بلکہ اس کا مقرب بن گیا تھا۔ قرآن میں دوسری جگہ اس کا ذکر فرعون اور اس کے وزیر ہامان کے ساتھ کیا گیا ہے۔ (دیکھئے غافر :24)