وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور آپ کا پروردگار! جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے (اپنے کام کے لئے) [٩٢] منتخب کرلیتا ہے۔ انھیں اس کا کچھ اختیار [٩٣] نہیں۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور جو کچھ یہ شریک بناتے ہیں اس سے وہ بالاتر ہے۔
11۔ یعنی اسے یقینا نجات ملے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ جس چیز کی امید دلاتا ہے اس کے ہونے میں کوئی شک نہیں ہوتا یا عسیٰ سے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ نجات پانا اللہ کے فضل سے ہوگا ورنہ یہ اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں ہے۔12۔” یا جو چاہتا ہے اختیار کرتا ہے“۔ جیسے فرمایا : لا یسئل عما یفعل و ھم یسائولون۔ (انبیاء :23) یا ” جن کو چاہتا ہے (اپنے دین کی مدد کے لئے) پسند فرما لیتا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کو چن لیا اور ان میں سے پھر چار (خلفاء اربعہ) کو خاص طور پر منتخب کرلیا جیسا کہ حضرت جابر (رض) سے ایک مرفوع روایت میں ہے۔ (قرطبی) 13۔ کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی کام کرسکیں بلکہ خود بندے اور ان کے سب کام خدا کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ البتہ ظاہر میں بندوں کو ایک طرح مختار بنایا گیا ہے جس پر ثواب و عقاب کا مدار ہے۔ لیکن پھر بھی تکوینی طور پر سب اللہ کی قضا و قدر کے سامنے مجبور ہیں۔ اہل حدیث کا مذہب یہی ہے نہ وہ جبری ہیں کہ بندے کو مجبور محض کہیں اور نہ قدری کہ بندے کو کلی مختار سمجھیں۔ نبیﷺ نے اس مسئلہ میں بحث کرنے کی ممانعت فرما دی ہے اور پہلی بدعت جو مسلمانوں میں ظاہر ہوئی اسی مسئلہ میں بحث تھی۔ (وحیدی بتصرف) یا مطلب یہ ہے کہ بندے اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہیں منتخب کرلیں۔ مخلوق اور پھر بنی نوع انسان میں کسی شخص کو ممتاز بنانا اور اسے کسی منصب پر فائز کرنا سراسر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ سیاق کے اعتبار سے یہی معنی اقرب ہیں۔ 1۔ معلوم ہوا کہ اس کارخانۂ قدرت میں کسی بندے کو چاہے وہ ولی یا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو کوئی اختیار نہیں ہے یہ تمام اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔