قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاهُمْ كَمَا غَوَيْنَا ۖ تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ ۖ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ
اور وہ لوگ اللہ کے مزعومہ شریک) جن پر عذاب کی بات واجب [٨٦] ہوجائے گی : پروردگار! ہم نے ان لوگوں (اپے پیروؤں) کو گمراہ کیا تھا (اور) انھیں ایسے ہی گمراہ کیا جیسے ہم خود ہی گمراہ تھے۔ اب ہم آپ کے سامنے ان سے برات کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے عبادت [٨٧] نہیں کی تھی۔
5۔ ان سے مراد شیاطین یا وہ بڑے بڑے پیشوا، سردار لیڈر اور پیر فقیر قسم کے لوگ ہیں جن کو دنیا میں لوگوں نے ادبابا من دون اللہ بنا لیا تھا اور ان کی بات کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسولوں کی بات کو رد کردیا کرتے تھے۔ (شوکانی) 6۔ یعنی ہم نے ان پر کوئی زبردستی نہیں کی تھی اور نہ ان سے سوچنے سمجھنے کی قوتیں سلب کرلی تھیں بلکہ جس طرح ہم خود اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے تھے۔ اسی طرح ہم نے ان کے سامنے بھی گمراہی پیش کی اور انہوں نے اپنی مرضی سے اسے قبول کرلیا۔ (وحیدی بتصرف) 7۔ یعنی یہ ہماری نہیں بلکہ اپنے ہی نفس کی بندگی کرتے تھے۔ خود ان کے دل میں یہ سمایا کہ ہماری بندگی کریں اس لئے ہماری بندگی کرنے لگے لہٰذا ہم پر ان کے گمراہ ہونے کی ذمہ داری نہیں۔ (وحیدی) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یہ شیطان بولیں گے بہکایا تو انہوں نے نام لے کر نیکیوں کا اسی لئے کہا کہ ہم کو نہ پوجتے تھے۔