فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَىٰ ۚ أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۖ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ
پھر ہم ہماری طرف سے ان کے پاس حق آگیا تو انہوں نے کہہ دیا : اسے ویسے معجزات کیوں نہیں دیئے گئے جیسے موسیٰ کو دیئے گئے تھے ’’کیا یہ لوگ ان معجزات کا انکار کرچکے جو پہلے [٦٤] موسیٰ کو دیئے گئے تھے؟‘‘ کہتے ہیں کہ : ’’یہ دونوں [٦٥] (تورات اور قرآن) جادو ہیں جو ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں‘‘ اور کہتے ہیں کہ : ’’ہم کسی کو بھی نہیں مانتے‘‘[٦٦]
2۔ یعنی عصا اور ید بیضا وغیرہ جیسے معجزات نہیں دکھلاتے اور یہ قرآن توریت کی طرح ایک ہی مرتبہ پورے کا پورا ان پر کیوں نہیں اتارا گیا۔ (قرطبی) 3۔ یا ” کیا یہ لوگ۔ قریش۔ اس (نبوت) کا انکار نہیں کرچکے ہیں جو اس سے پہلے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو دی گئی تھی۔“ یعنی ان معجزات کے باوجود حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی نبوت پر کونسا ایمان لے آئے تھے جو آج آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان جیسے معجزات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔4۔ یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” اولم یکفروا“ کا فاعل پہلے لوگوں… قوم فرعون… کو قرار دیا جائے اور یہ معنی جید ہیں۔ (ابن کثیر) اور اگر اس کا فاعل قریش کو قرار دیا جائے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ توراۃ اور قرآن دونوں جادو ہیں اور قرآن میں عموماً توراۃ اور قرآن کا تذکرہ ایک ساتھ آیا ہے اور آگے کتاب کا ذکر آرہا ہے اس لئے یہی مطلب زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ (شوکانی)